حج بیت اللہ


شرائط ‘اقسام‘اور ادائیگی

رانا اعجاز حسین چوہانقمری کیلنڈر کا آخری مہینہ ذی الحجہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے،جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت سے ہی محترم بنایا ہے۔قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے”قسم ہے فجر کی ،اور دس راتوں کی“۔مفسرین کی اکثریت کے مطابق ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں،بلاشبہ جو ذات خود عظیم ہو وہ صاحب عظمت شے ہی کی قسم کھاتی ہے ۔
اللہ عزوجل کا کسی شے کی قسم کھانا اس کی عظمت وفضیلت کی واضح دلیل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کو سب سے اعلیٰ وافضل قرار دیا ہے ،ذی الحجہ کے دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو نیک عمل جتنا محبوب ہے اس کے علاوہ دیگر دنوں میں نہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ”اور دنوں میں بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنامحبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے ،اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں“(ترمذی )۔

ایک دوسری حدیث میں خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ”دنیا کے افضل ترین دن ایام العشر (یعنی ذوالحجہ کے دس دن)ہیں“۔صحابہ کرام نے عرض کیا”کیا اللہ کے راستے میں جہاد بھی (ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر نہیں؟)فرمایا”نہیں،جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ۔سوائے اس شخص کے جوا پنی جان ومال کے ساتھ نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا(یعنی شہید ہو گیا)“۔
حج جیسی عظیم عبادت کا رکن اعظم یوم عرفہ بھی انہی ایام میں ہے اسی مناسبت سے اس مہینے کا نام ذوالحجہ ہے یعنی حج والا مہینہ ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”جس شخص نے اللہ کے گھر کا حج کیا اور بے ہودگی وفسق سے بچا رہا تو اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو“۔
یوم عرفہ انتہائی شرف و فضیلت کا حامل ہے یہ گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے آزادی کا دن ہے۔
اگر اول عشرہ ذی الحجہ میں سوائے یوم عرفہ کے اور کوئی قابل ذکر یا اہم شے نہ بھی ہوتی تو یہی اس کی فضیلت کے لیے کافی تھا۔حضرت عائشی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اللہ تعالیٰ جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہے اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا“۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”شیطان یوم عرفہ کے علاوہ کسی اور دن میں اپنے آپ کو اتنا چھوٹا،حقیر ،ذلیل اور غضبناک محسوس نہیں کرتا جتنا اس دن کرتا ہے۔
یہ محض اس لیے ہے کہ اس دن میں وہ اللہ کی رحمت کے نزول اور انسانوں کے گناہوں سے صرف نظر کا مشاہدہ کرتا ہے“۔حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے“(صحیح مسلم)۔

مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے ۔احادیث مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نوروزے ،دس محرم اور ہر مہینے کے تین دن (ایام بیض )کے روزے رکھتے تھے۔واضح رہے کہ عشر ہ ذی الحجہ میں روزے نوذی الحجہ تک ہی رکھے جاسکتے ہیں،دس ذی الحجہ کو عید ہوتی ہے جس کا روزہ رکھنا جائز نہیں، اسی طرح عیدالاضحی کے بعد 11،12،13ذی الحجہ جو ایام تشریق کہلاتے ہیں ان میں بھی روزہ رکھنا جائز نہیں۔

حج کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی عید ،عید الاضحی بھی ماہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو ہوتی ہے ۔عید کا دن جہاں خوشی ومسرت کا دن ہوتا ہے وہیں عید کی رات انعام والطاف کی رات ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور نوازش عید کی رات میں ہوتی ہے چاہے وہ عیدالفطر کی رات ہو یا عیدالاضحی کی رات دونوں نہایت ہی اہمیت والی راتیں ہیں اور انسانوں کے لئے سعادت کا ذریعہ ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”کہ جس شخص نے عیدیدن کی راتوں میں اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی خاطر قیام کیا تو اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہو گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے“(ابن ماجہ)۔
قربانی جیسا عظیم اور مہتمم بالشان عمل بھی اسی مہینے میں انجام دیا جاتا ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم سنت قیامت تک جاری رہے گی۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”ذی الحجہ کی 10تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں،اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ،سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا(اور یہ چیزیں اجر وثواب کا سبب بنیں گی)اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے،لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو“(ترمذی)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے”کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کاقربانی کرنے کا ارادہ ہوتو وہ اپنے بال اور ناخن کا ٹنے سے رک جائے“۔یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لئے جو قربانی دینے والے ہوں،چاند دیکھنے سے لے کر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہیے۔
جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔عشرہ ذی الحجہ میں تکبیر وتسبیح اور ورد کی تلقین فرمائی گئی ہے،اور بطور خاص ایام تشریق میں تکبیرات تشریق پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔تکبیر تشریق 9ذی الحجہ کی فجر سے 13ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا مردوعورت دونوں پر واجب ہے،البتہ عورت بلند آواز سے نہ کہے۔
تکبیر تشریق صرف ایک دفعہ پڑھنا احادیث سے ثابت ہے ۔جس شخص کی امام کے ساتھ رکعتیں رہ گئی ہوں اسے اپنی نماز پوری کرکے سلام پھیرنے کے بعد تکبیر تشریق پڑھنی چاہیے۔واضع رہے کہ تکبیر تشریق صرف فرض نماز کے بعد پڑھنے کا حکم ہے،سنت اور نفل کے بعد نہیں۔تکبیرات تشریق یہ ہیں”اللہ اکبر․․․․اللہ اکبر․․․․․لاالہ الااللہ․․․․․واللہ اکبر․․․․اللہ اکبر․․․․․وللہ الحمد“۔

لہٰذاایام تشریق میں ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔یوں تو ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں ،جن میں بڑی بڑی عبادتیں جمع ہو جاتی ہیں یعنی نماز ،روزہ ،حج اور قربانی ،ان تمام خصوصیات کی بناہ پر ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی اہمیت اور افضیلت دو چند ہو جاتی ہے۔غرضیکہ رمضان المبارک کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے،ہمیں ان بابرکت ایام میں بڑھ چڑھ کر نیک اعمال کرنا چاہیے،دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے،آمین۔


Share To:

AFS STUDIO

Post A Comment:

0 comments so far,add yours